شاعر:انجم خیالی

ہر گھر میں اک ایسا کونا ہوتا ہے

جہاں کسی کو چھپ کر رونا ہوتا ہے

 

یہ انجم خیالی کا شعر ہے.

انجم خیالی جہلم کے تھے۔ میرپور میں استاد رہے۔ پھر شاید میر پوریوں کی صحبت کا اثر ہوا کہ انگلستان چلے گئے۔ بریڈفورڈ میں بس کنڈکٹر رہے۔ انگلستان میں ہی انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔ان کا مجموعہءکلام چوری ہو گیا تھا – بعد میں بیٹے نے کچھ کلام تلاش کرکے کتاب کی صورت میں شائع کیا.

 

انجم خیالی کے کچھ اور شعر

 

اذاں پہ قید نہیں ، بندشِ نماز نہیں

ہمارے پاس تو ہجرت کا بھی جواز نہیں

۔

اجرت کی لالچ میں ہم مزدوروں کو

چوروں کا اسباب بھی ڈھونا ہوتا ہے

۔

اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا

یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

۔

آنکھہ جھپکیں تو اتنے عرصے میں

جانے کتنے برس گزر جائیں

۔

کہاں ملا میں تجھے یہ سوال بعد کا ہے

تو پہلے یاد تو کر کس جگہ گنوایا مجھے

۔

بعض وعدے کیے نہیں جاتے

پھر بھی ان کو نبھایا جاتا ہے

۔

اس نام کا کوئی بھی نہیں ہے

جس نام سے ہم پکارتے ہیں

۔

جاں قرض ہے سو اتارتے ہیں

ہم عمر کہاں گزارتے ہیں

۔

کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے

جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے

۔

کچھہ تصاویر بول پڑتی ہیں

سب کی سب بے زباں نہیں ہوتیں

۔

لڑکیوں میں بس ایک خامی ہے

یہ دوبارہ جواں نہیں ہوتیں

۔

پہلے کرتے تھے ہوش کی باتیں

اب یہ نادانیاں نہیں ہوتیں

۔

مرے مزار پہ آ کر دیے جلائے گا

وہ میرے بعد مری زندگی میں آئے گا

۔

مجھے ہنسی بھی مرے حال پر نہیں آتی

وہ خود بھی روئے گا اوروں کو بھی رلائے گا

۔

مجھے کچھہ دیر رکنا چاہئے تھا

وہ شاید دیکھہ ہی لیتا پلٹ کر

۔

شب کو اک بار کھل کے روتا ہوں

پھر بڑے سکھہ کی نیند سوتا ہوں

۔

میرے آنسو کبھی نہیں رکتے

میں ہمیشہ وضو میں رہتا ہوں

۔

دیے جلا کے ندی میں بہایا کرتا تھا

فلک کو اپنے ستارے دکھایا کرتا تھا

۔

چہار سمت محبت کے بھیجتا تھا رسول

میں گھر کی چھت پہ کبوتر اُڑایا کرتا تھا

۔

مرے مزاج میں غربت کی کوئی چھاپ نہ تھی

میں ریت کے بھی محل ہی بنایا کرتا تھا

۔

ہزار بار بھی میں دیکھتا تھا نقش اس کے

تو واپسی پہ انہیں بھول جایا کرتا تھا

۔

اسی لیے تو مرا کاٹنا ضروری تھا

میں رہ کے دھوپ میں اوروں پہ سایا کرتا تھا

۔

بول کر بولیاں پرندوں کی

ان کو گھیرے میں لایا جاتا ہے

۔

بچھڑ کے اس کو گئے آج تیسرا دن ہے

اگر وہ آج نہ آیا تو پھر نہیں آئے گا

۔

فقیہہ شہر کے بارے میں میری رائے تھی

گناہ گار ہے پتھر نہیں اٹھائے گا

۔

اسی طرح درودیوار تنگ ہوتے رہے

تو کوئی اپنے لئے گھر نہیں بنائے گا

۔

ہمارے بعد یہ دارورسن نہیں ہوں گے

ہمارے بعد کوئی سر نہیں اٹھائے گا

۔

راستے میں پڑا ہوا ہوں میں

میرے گھر سب کا آنا جانا ہے

۔

پربت، جھیلیں، پھول بنا کر پنسل سے

کاغذ پر کشمیر بناتا رہتا ہوں

۔

سنبھال رکھی ہیں دامن کی دھجیاں میں نے

اگست آیا تو پھر جھنڈیاں بناؤں گا

 

خیالی صاحب نے سمندر پار پاکستانیوں کے دکھوں کو سمیٹتی لوک گیت "چل چل چنبیلی باغ میں” کی تضمین کی جو ان کے سمندر پار جانے کے پس منظر میں دکھ کا اظہار ہے ۔ اس کا ایک بند ۔۔۔

 

چل چل چنبیلی باغ میں ، چل چل چنبیلی باغ میں

میں تو رہا پردیس میں ، تو بھی نہ کھیلی باغ میں

 

پھولوں کا موسم دور ہے ، جھولوں کا موسم دور ہے

گلچیں نے کر لی ہے کھڑی ، اونچی حویلی باغ میں

چل چل چنبیلی باغ میں

سن تو ذرا کہتی ہے کیا تیری سہیلی باغ میں

چل چل چنبیلی باغ میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button