(یہ تحریر ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ تنقید کا خیر مقدم کیا جائے گا)
امریکہ کے ادارے این ایس اے (NSA—National Security Agency) کے سابق ملازم/ٹھیکیدار، ایڈورڈ سنوڈن جو اس وقت روس میں مقیم ہے، نے الزام لگایا ہے کہ لبنان میں ہونے والے ریموٹ پیچر دھماکے اسرائیل نے کرائے ہیں۔ ایڈورڈ سنوڈن نے سنہ 2013 میں امریکہ سے باغی ہو کر این ایس اے کی خفیہ سرگرمیوں کا انکشاف کیا تھا۔ وہ اس وقت سے امریکہ کو مطلوب ہیں۔
کمیونیکیشن ڈیوائسز (مواصلاتی آلات)، جیسے سیل فونز (cell phones)، پیجرز (pagers)، اور لیپ ٹاپس (laptops)، کی ہتھیار سازی (weaponization)، بشمول ایپل (Apple) جیسی کمپنیوں کے بنائے ہوئے آلات، جدید ٹیکنالوجی میں ایک تشویشناک اور خطرناک پیشرفت ہے۔
یہ آلات، جو اصل میں صارف کی سہولت اور مواصلات کے لیے بنائے گئے تھے، نگرانی (surveillance)، کنٹرول (control)، اور یہاں تک کہ پرتشدد سرگرمیوں کے لیے دوہری ٹیکنالوجی کے طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی یہ دوہری نوعیت (dual-use nature) بے ضرر اور بدنیتی پر مبنی ایپلی کیشنز، دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں، تاہم اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ آلات کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔
لبنان میں پیجر دھماکے
(Pager Detonations in Lebanon):
لبنان جیسے جنگ زدہ علاقوں میں، پیجرز (pagers) کو دھماکہ خیز مواد کے طور پر ریموٹ دھماکے (remote detonation) کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جنگ کے ایک حریف نے اس ابتدائی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو بم کے طور پر استعمال کرکے ایک سادہ پیغام رسانی کے آلے کو ایک مہلک ہتھیار میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس نے پرتشدد ماحول میں ٹیکنالوجی کی ہتھیار سازی (weaponization) کی صلاحیت کو اجاگر کیا ہے جہاں کمیونیکیشن ڈیوائسز کو جسمانی نقصان کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یعنی پیجرز (pagers) کو تباہی کے ہتھیار میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مواصلاتی نیٹ ورکس کتنے کمزور ہو سکتے ہیں اور انہیں برے اور انتہائی خطرناک مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایڈورڈ سنوڈن کے مطابق سیل فون کی ہتھیار سازی
(Cell Phone Weaponization):
ایڈورڈ سنوڈن (Edward Snowden) کے 2013 کے انکشافات میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ جدید آلات، خاص طور پر سیل فونز (cell phones)، کو کیسے ہتھیار بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے انکشافات میں توجہ ریموٹ دھماکے پر نہیں تھی بلکہ بڑے پیمانے پر نگرانی (mass surveillance) اور کنٹرول (control) پر تھی۔ سنوڈن نے انکشاف کیا تھا کہ حکومتیں، خاص طور پر امریکی این ایس اے (U.S. NSA)، سیل فونز (cell phones) کا استعمال لوگوں کی نگرانی، ٹریکنگ، اور ذاتی ڈیٹا جمع کرنے کے لیے کر رہی تھیں، اور یہ سارا کام لوگوں کی اجات یا مرضی کے بغیر کیا جا رہا تھا۔سنوڈن کی باتوں کے کچھ اہم پہلو:
حقیقی وقت میں ٹریکنگ
(Real-Time Tracking):
سیل فونز (cell phones) مسلسل سگنلز خارج کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب انہیں سوئچ آف کردیا گیا ہوتا ہے یہ اس وقت بھی سگنلز دے رہے ہوتے ہیں، جس سے ایجنسیوں کو کسی فرد کے مقام کو حقیقی وقت میں ٹریک کرنے کا موقع ملتا ہے، اس طرح بنیادی طور پر فونز یا دیگر ڈیوائسز ٹریکنگ آلات (tracking devices) میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
جاسوسی اور ہیکنگ
(Spying and Hacking):
میلویئر (malware) جیسے ٹولز فونز کو مائیکروفون اور کیمرے تک ریموٹ رسائی کے ذریعے براہ راست نگرانی کے آلات میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کا فون آپ کی معلومات کے بغیر آپ کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آلات میں بیک ڈورز
(Backdoors in Devices):
ایڈورڈ سنوڈن (Snowden) نے انکشاف کیا تھا کہ کچھ کمپنیاں، جیسے ایپل (Apple)، حکومتوں کے دباؤ میں آ کر اپنے آلات میں بیک ڈورز (backdoors) ایپس شامل کرتی ہیں، جس سے ایجنسیوں کو صارف کے ڈیٹا تک آسانی سے رسائی ملتی ہے۔ سنوڈن (Snowden) کے انکشافات نے دکھایا کہ محفوظ ترین ڈیوائس بھی سمجھوتہ (compromise) کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایپل لیپ ٹاپس (Apple laptops) میں بیک ڈورز (backdoors) کا استعمال حکومتی ایجنسیوں یا ہیکرز کو صارف کے ڈیٹا، مائیکروفون، یا کیمرے تک بغیر رضامندی کے رسائی فراہم کر سکتا ہے۔
جنگ زدہ علاقوں میں ٹیکنالوجی کی ہتھیار سازی
(Technological Weaponization in Conflict Zones):
جنگ زدہ علاقوں میں، جیسا کہ حال ہی میں پیجرز (pagers) کو بم دھماکوں کے لیے استعمال کیا گیا، سیل فونز (cell phones) کو بھی ریموٹ دھماکہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ایک الزام ہے کہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے ایک سینئیر کمانڈر فواد شُکر کو موبائل فونز کے دھماکوں سے ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ جسمانی ہتھیار سازی (physical weaponization) کی ایک اور شکل ہے، جہاں وہی آلات جو بے ضرر مواصلات کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں، پرتشدد کارروائیوں کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
پیجرز (pagers)، سیل فونز (cell phones)، اور لیپ ٹاپس (laptops) جیسے ڈیوائسز کی ہتھیار سازی (weaponization) ایک وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتی ہے جس میں کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کو نقصان دہ مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چاہے یہ جنگ زدہ علاقوں میں ریموٹ دھماکے (remote detonation) کے ذریعے ہو، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی (mass surveillance) کے ذریعے، یا آلات میں بیک ڈورز (backdoors) کے زبردستی شامل کرنے کے ذریعے ہو، یہ ان ڈیوائسز کے غلط استعمال کی صلاحیت کو نمایاں کرتے ہیں۔
اگر ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کی روشنی میں دیکھا جائے تو چائینیز ڈیوائسز (Chinese devices) کوئی خاص فائدہ پیش نہیں کرتے، کیونکہ نگرانی کی عالمی نوعیت کا مطلب ہے کہ تمام ڈیوائسز کا ممکنہ طور پر استحصال کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ امریکی، چینی، یا دیگر حکومتیں کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چائینیز فونز (Chinese phones) ہارڈویئر اور خصوصیات کے لحاظ سے مغربی ممالک کی ڈیوائسز سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں، تاہم ان کے پرائیویسی اور سیکیورٹی معیارات بھی دیگر ممالک کے ڈیوائسز کی طرح ہی کمزور یا “ولنر ایبل” ہیں۔ یہاں بحث یہ نہیں ہے کہ کس ملک کے ڈیوائسز “بہتر” ہیں بلکہ بات اس بارے میں ہے کہ ڈیوائسز، عمومی طور پر، نگرانی (surveillance) کے لیے کیسے ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مینوفیکچرر کے ہوں۔
آپ کو صرف یہ انتخاب کرنا ہے کہ آیا آپ مغربی ممالک کی سرویلنس اور ہتھیار سازی (weaponization) کا شکار ہونا چاہتے ہیں یا چائینیز کمپنیوں کی۔ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو مغربی ممالک کے ادارے، اور اب اسرائیل پر ہتھیار سازی (weaponization)، کے الزامات کے بعد چائینیز پراڈکٹ کا استعمال زیادہ محفوظ راستہ محسوس ہوگا کیونکہ موخرالذکر نے تاحال کُھل کر اپنے ڈیوائسز کی ہتھیار سازی (weaponization) نہیں کی ہے۔