لاہور (بلدیات ٹائمز رپورٹ)حکومت پنجاب کی طرف سے لاہور کی تعمیرو ترقی کے منصوبے اور نیا دور صاف ستھرا لاہور کے لئے ترقیاتی پیکج جاری نہیں ہوسکا ہے۔ڈویژنل و ضلعی انتظامیہ، ایم سی ایل اور واسا مقررہ مدت میں اہداف مکمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور نے فنڈز کی کمی کے باعث جاری ترقیاتی سکیموں پر کام روک دیا ہے جبکہ ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں بھی بند ہو گئی ہیں۔ایم سی ایل نے جو پی ایف سی شیئر اور یو آئی پی ٹیکس شیئر محکمہ خزانہ پنجاب کی طرف سے جاری ہوا ہے اس سے تنخواہیں اور یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔جاری ترقیاتی سکیموں کی بندش کی بڑی وجہ محکمہ خزانہ کو بجھوائی سمری ہیں جس پر محکمہ خزانہ نے اچھا رسپانس نہیں دیا ہے جس میں گذشتہ سالوں میں ضائع ہونے والے اور ایم سی ایل کو جاری نہ ہونے والے فنڈز اور گرانٹس کی منتقلی کی استدعا کی گئی تھی۔ایم سی ایل کو 22 ارب روپے کا ترقیاتی پیکج تو دور اس کے گذشتہ سالوں کے فنڈز و گرانٹ ہی جاری نہیں ہو رہی ہیں۔دیگر وجوہات میں یو آئی پی ٹیکس شیئر کی مد میں مایوس کن کمی اور پی ایف سی ڈویلپمنٹ شیئر کا اجراء نہ ہونا بھی ہے۔آمدن کے اہداف میں بھی ایم سی ایل کو نمایاں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔اس کے علاوہ لاہور پارکنگ کمپنی، واسا اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی واجبات ادا نہیں کر رہی ہے۔محکمہ خزانہ کی طرف سے مقامی حکومتوں کے نظام کے خاتمہ کے بعد ایم سی ایل کو کوئی اضافی گرانٹ جاری نہیں کی گئی ہے۔
”چیف منسٹر لاہور ری ویمپنگ پلان کے حوالے سے وزیر بلدیات ذیشان رفیق نے دو ہفتہ قبل اہم اجلاس میں بلدیہ عظمیٰ کی 188 اور واسا کی 207 سکیمیں مکمل کرنے کے لئے 30 جون 2024 کو ڈیڈ لائن دی تھی جس کے مطابق نظرانداز شدہ علاقوں پر فوکس کرنا، محکمہ بلدیات پنجاب کا بطور تعمیراتی ایجنسی اختیار بلدیہ عظمیٰ کو منتقل کرنے کا فیصلہ ،
25 اپریل تک ہر سکیم کی جی آئی ایس میپنگ مکمل کرنے، پی سی ون 10 روز میں مکمل کرنے اور ایک ماہ کے اندر سکیموں کی ٹینڈرنگ جبکہ ڈپٹی کمشنر بطور ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ لاہور نگرانی کے اختیارات اور فیصلے اہم ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے احکامات کی روشنی میں تمام متعلقہ اداروں کا ایک ڈیش بورڈ بھی فوری بنایا جانا تھا۔ ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر نے دو ہفتہ قبل منعقدہ اجلاس میں یقین دہانی کروائی تھی کہ پانچ روز میں ڈی ڈی ڈبلیو پی سے سکیموں کی منظوری لے لی جائے گی اور ڈپٹی کمشنر آفس میں ڈیش بورڈ بھی قائم کر لیا جائے گا۔ شکایات ڈیسک اور مانیٹرنگ سیل بھی فعال نہیں ہو سکا ہے۔ترقیاتی پیکج جاری کئے بغیر کام شروع کروانے سے حکومت کو مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی ایم سی ایل کی بجائے ایل ڈی اے پر نوازشات کی جائیں گی ۔ابھی ڈپٹی کمشنر لاہور کی طرف سے صوبائی حکومت کو صرف جی آئی ایس میپنگ مکمل کرنے کی نوید سنائی گئی ہے۔پنجاب حکومت نے جن 395 ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کیا تھا ان منصوبوں سے عوام کا لاعلم رکھا جا رہا ہے جن کے پی سی ون مقررہ مدت میں مکمل نہیں ہو سکے ہیں۔تاخیر کے باعث ترقیاتی منصوبوں کا 30 جون تک مکمل ہونا جہاں مشکل ہے وہاں ترقیاتی پیکج آئندہ مالی سال میں جانے کا بھی خدشہ ہے۔اگر جلد بازی منصوبے مکمل کئے جاتے ہیں تو معیار کی گارنٹی نہیں ہوگی اس کے برعکس پنجاب حکومت کا دعوٰی ہے کہ اس طرح منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا کئی سال تک دوبارہ ضرورت نہیں پڑے گی اورلانگ ٹرم پلاننگ کریں گے۔